Mard o zan ki namaaz maiN faraq
عورت اور مرد کی نماز میں فرق
مرد وعورت کی نماز میں تفریق اور امتیاز اگرچہ ہمارے نزدیک عورت کے امتیازی مسائل میں شامل نہیں- کیونکہ اس تفریق و امتیاز کی کوئی صحیح دلیل نہیں- لیکن چونکہ برادران احناف نے مرد اور عورت کی نماز میں تفریق کررکھی ہے، بنابریں اس کی اصل حیثیت کی وضاحت ہمارے نزدیک ضروری ہے، اس لیے ذیل میں اس کی بابت بھی چند گزارشات اور احناف کے دلائل پر کچھ تجصرہ درج ہے- جہاں تک ہمیں علم ہے اس کے مطابق احناف نے تین مسئلوں میں عورتوں کا مردوں سے مختلف طریقہ نماز بتلایا ہے-
٭ رفع الیدین میں، کہ مرد کانوں تک تکبیر کے لیے ہاتھ اٹھائے اور عورت کاندھے تک-
٭ عورت سینے پر ہاتھ باندھے اور مرد زیر ناف-
٭ عورت جب سجدہ کرے تو اپنا پیٹ رانوں سے چپکالے جب کہ مرد کو حکم ہے کہ اپنی رانیں پیٹ سے دور رکھے-
٭ پہلے امر کے متعلق ہماری نظر سے کوئی معقول دلیل نہیں گزری، جس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ احناف کے پاس اپنے اس موقف کے اثبات کے لیے سواء قیاس کے کوئی دلیل نہیں-
چنانچہ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
" حنفیہ جو کہتے ہیں کہ مرد ہاتھ کانوں تک اٹھائے اور عورت کندھوں تک، اس کہ اس میں عورت کے لیے زیادہ ستر (پردہ) ہے- مرد و عورت کے درمیان فرق کرنے کا یہ حکم کسی حدیث میں وارد نہیں ہے-"
(فتح الباری، الاذان:2/287)
اور امام شوکانی لکھتے ہیں:
" یہ رفع الیدین ایسی سنت ہے جو مرد و عورت دونوں کے لیے یکساں ہے، اس کی بابت دونوں کے درمیان فرق کرنے کا کوئی حکم نہیں ہے- اس طرح مقدار رفع میں بھی فرق کرنے کی کوئی صراحت منقول نہیں ہے جیسا کہ حنفیہ کا مذہب ہے کہ مرد ہاتھ کانوں تک اٹھائے اور عورت کندھوں تک- حنفیہ کے اس مذہب کی کوئی دلیل نہیں ہے-"
(نیل الاوطار، باب رفع الیدین وبیان صفتہ مواضعہ: 2/206)
٭ دوسرے امر میں ہاتھ باندھنے میں احناف مرد وعورت کے درمیان جو تفریق کرتے ہیں، اس کی بھی کوئی دلیل ہمارے علم میں نہیں ہے- یہ بھی اس امر بین شہادت ہے کہ احناف کے پاس اپنے موقف کے اثبات کے لیے بھی کوئی دلیل نہیں ہے- اس لیے احادیث صحیحہ کی رو سے مرد و عورت دونوں کے لیے یہ ہی حکم ہے کہ وہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھیں-
مولانا یوسف لدھیانوی مرحوم نے اپنی کتاب "اختلاف امت اور صراۃ مستقیم" میں سارا زور تیسرے فرق کے اثبات پر لگایا ہے- کیونکہ اس مسئلہ میں ان کے پاس ایک مرسل روایت اور ضعیف آثار ہیں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ مرسل روایت محدثین اور علمائے محققین کے نزدیک قابل حجت ہی نہیں- علاوہ ازیں یہ مرسل روایت بھی منقطع ہے اور اس میں ایک راوی (سالم) متروک ہے-
(ملاحظہ ہو: الجوھر النقی، تحت السنن الکبری، بیھقی، ج2)
٭ اس مرسل و منقطع روایت کے علاوہ مدیر "بینات" نے کنزالعمال کی ایک روایت بیہقی اور ابن عدی کے حوالے سے بروایت عبداللہ بن عمر رض نقل کی ہے کہ "آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے' عورت جب سجدہ کرے تو اپنا پیٹ رانوں سے چپکالے- ایسے طور پر کہ اس کے لیے زیادہ سے زیادہ پردے کا موجب ہو-"
( ص:90-91)
یہ روایت سنن بیہقی میں موجود ہے لیکن موصوف نے یہ روایت سنن بیہقی کے بجائے کنز العمال کے حوالے سے نقل کی ہے- اور وجہ اس کی یہ ہے کہ سنن بیہقی میں اس کی سند بھی موجود ہے اور اس کی بابت امام بیہقی کی یہ صراحت بھی ہے کہ:
"اس جیسی (ضعیف) روایت کے ساتھ استدلال نہیں کیا جاسکتا-"
(ملاحظ ہو، سنن بیہقی، ج2، ص:222-223)
بہرحال ارکان نماز میں مرد و عورت کے درمیان شریعت اسلامیہ نے کوئی فرق و امتیاز نہیں کیا- بلکہ ایک عام حکم دیا ہے:
{صلو کما رایتمونی اصلی}
"تم نماز اس طرح پرھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے"
(صحیح بخاری)
اس حکم میں مرد و عورت دونوں شامل ہیں جب تک کہ کسی واضح نص سے عورتوں کی بابت مختلف حکم ثابت نہ کر دیا جائے- جیسے عورت کے لیے ایک خاص حکم یہ ہے کہ وہ اوڑہنی (پردے) کے بغیر نماز نہ پڑھے، اسی طرح حکم ہے کہ باجماعت نماز پرھنے کی صورت میں اس کی صفیں مردوں سے آگے نہیں، بلکہ پیچھے ہوں- اگر نماز کی ہیئت اور ارکان کی ادائگی میں بھی فرق ہوتا تو شریعت میں اس کی بھی وضاحت کردی جاتی- اور جب ایسی صراحت نہیں ہے تو اس کا صاف مطلب ہے کہ مرد و عورت کی نماز میں تفریق کا کوئی جواز نہیں-
اقتباس: عورتوں کے امتیازی مسائل و قوانین
از: حافظ صلاح الدین یوسف حفظ اللہ
عورت اور مرد کی نماز میں فرق
مرد وعورت کی نماز میں تفریق اور امتیاز اگرچہ ہمارے نزدیک عورت کے امتیازی مسائل میں شامل نہیں- کیونکہ اس تفریق و امتیاز کی کوئی صحیح دلیل نہیں- لیکن چونکہ برادران احناف نے مرد اور عورت کی نماز میں تفریق کررکھی ہے، بنابریں اس کی اصل حیثیت کی وضاحت ہمارے نزدیک ضروری ہے، اس لیے ذیل میں اس کی بابت بھی چند گزارشات اور احناف کے دلائل پر کچھ تجصرہ درج ہے- جہاں تک ہمیں علم ہے اس کے مطابق احناف نے تین مسئلوں میں عورتوں کا مردوں سے مختلف طریقہ نماز بتلایا ہے-
٭ رفع الیدین میں، کہ مرد کانوں تک تکبیر کے لیے ہاتھ اٹھائے اور عورت کاندھے تک-
٭ عورت سینے پر ہاتھ باندھے اور مرد زیر ناف-
٭ عورت جب سجدہ کرے تو اپنا پیٹ رانوں سے چپکالے جب کہ مرد کو حکم ہے کہ اپنی رانیں پیٹ سے دور رکھے-
٭ پہلے امر کے متعلق ہماری نظر سے کوئی معقول دلیل نہیں گزری، جس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ احناف کے پاس اپنے اس موقف کے اثبات کے لیے سواء قیاس کے کوئی دلیل نہیں-
چنانچہ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
" حنفیہ جو کہتے ہیں کہ مرد ہاتھ کانوں تک اٹھائے اور عورت کندھوں تک، اس کہ اس میں عورت کے لیے زیادہ ستر (پردہ) ہے- مرد و عورت کے درمیان فرق کرنے کا یہ حکم کسی حدیث میں وارد نہیں ہے-"
(فتح الباری، الاذان:2/287)
اور امام شوکانی لکھتے ہیں:
" یہ رفع الیدین ایسی سنت ہے جو مرد و عورت دونوں کے لیے یکساں ہے، اس کی بابت دونوں کے درمیان فرق کرنے کا کوئی حکم نہیں ہے- اس طرح مقدار رفع میں بھی فرق کرنے کی کوئی صراحت منقول نہیں ہے جیسا کہ حنفیہ کا مذہب ہے کہ مرد ہاتھ کانوں تک اٹھائے اور عورت کندھوں تک- حنفیہ کے اس مذہب کی کوئی دلیل نہیں ہے-"
(نیل الاوطار، باب رفع الیدین وبیان صفتہ مواضعہ: 2/206)
٭ دوسرے امر میں ہاتھ باندھنے میں احناف مرد وعورت کے درمیان جو تفریق کرتے ہیں، اس کی بھی کوئی دلیل ہمارے علم میں نہیں ہے- یہ بھی اس امر بین شہادت ہے کہ احناف کے پاس اپنے موقف کے اثبات کے لیے بھی کوئی دلیل نہیں ہے- اس لیے احادیث صحیحہ کی رو سے مرد و عورت دونوں کے لیے یہ ہی حکم ہے کہ وہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھیں-
مولانا یوسف لدھیانوی مرحوم نے اپنی کتاب "اختلاف امت اور صراۃ مستقیم" میں سارا زور تیسرے فرق کے اثبات پر لگایا ہے- کیونکہ اس مسئلہ میں ان کے پاس ایک مرسل روایت اور ضعیف آثار ہیں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ مرسل روایت محدثین اور علمائے محققین کے نزدیک قابل حجت ہی نہیں- علاوہ ازیں یہ مرسل روایت بھی منقطع ہے اور اس میں ایک راوی (سالم) متروک ہے-
(ملاحظہ ہو: الجوھر النقی، تحت السنن الکبری، بیھقی، ج2)
٭ اس مرسل و منقطع روایت کے علاوہ مدیر "بینات" نے کنزالعمال کی ایک روایت بیہقی اور ابن عدی کے حوالے سے بروایت عبداللہ بن عمر رض نقل کی ہے کہ "آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے' عورت جب سجدہ کرے تو اپنا پیٹ رانوں سے چپکالے- ایسے طور پر کہ اس کے لیے زیادہ سے زیادہ پردے کا موجب ہو-"
( ص:90-91)
یہ روایت سنن بیہقی میں موجود ہے لیکن موصوف نے یہ روایت سنن بیہقی کے بجائے کنز العمال کے حوالے سے نقل کی ہے- اور وجہ اس کی یہ ہے کہ سنن بیہقی میں اس کی سند بھی موجود ہے اور اس کی بابت امام بیہقی کی یہ صراحت بھی ہے کہ:
"اس جیسی (ضعیف) روایت کے ساتھ استدلال نہیں کیا جاسکتا-"
(ملاحظ ہو، سنن بیہقی، ج2، ص:222-223)
بہرحال ارکان نماز میں مرد و عورت کے درمیان شریعت اسلامیہ نے کوئی فرق و امتیاز نہیں کیا- بلکہ ایک عام حکم دیا ہے:
{صلو کما رایتمونی اصلی}
"تم نماز اس طرح پرھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے"
(صحیح بخاری)
اس حکم میں مرد و عورت دونوں شامل ہیں جب تک کہ کسی واضح نص سے عورتوں کی بابت مختلف حکم ثابت نہ کر دیا جائے- جیسے عورت کے لیے ایک خاص حکم یہ ہے کہ وہ اوڑہنی (پردے) کے بغیر نماز نہ پڑھے، اسی طرح حکم ہے کہ باجماعت نماز پرھنے کی صورت میں اس کی صفیں مردوں سے آگے نہیں، بلکہ پیچھے ہوں- اگر نماز کی ہیئت اور ارکان کی ادائگی میں بھی فرق ہوتا تو شریعت میں اس کی بھی وضاحت کردی جاتی- اور جب ایسی صراحت نہیں ہے تو اس کا صاف مطلب ہے کہ مرد و عورت کی نماز میں تفریق کا کوئی جواز نہیں-
اقتباس: عورتوں کے امتیازی مسائل و قوانین
از: حافظ صلاح الدین یوسف حفظ اللہ
No comments:
Post a Comment